جلائے جلد جو، وہ آگ ہوں میں
بجھائے پیاس جو، وہ پانی ہوں میں
ایک محل، اس کا مینار ہوں میں
خزانے کی حفیظ جو، وہ تلوار ہوں میں
لیتا ہوں سانس جس میں، وہ ہوا ہو تم
سمندر پر ہے مہتاب کا جو، وہ عکس ہو تم
طلب ہے جس کی، وہ جام ہو تم
ڈوبنے کا ڈر ہے جس میں، وہ آنکھ ہو تم
کونسی اور آرزوئیں پوری کرو گے تم؟
کہا تم نے "ہوں میں نعم البدل دنیا کی دولت کا , ہوگی جو تمہاری، ہو گی جو تمہاری۔"