دور منزل ہے راہ گزر تنہا
راستہ ختم ہی نہیں ہوتا
ریزہ ریزہ ہے خواب آنکھوں میں
کیسے کہ دوں کے غم نہیں ہوتا
کوئی شکوہ نہیں مگر مولا
کوئی شکوہ نہیں مگر مولا
کیا کروں
درد کم نہیں ہوتا
کیا کروں
درد کم نہیں ہوتا
کیا کروں
درد کم نہیں ہوتا
کیا کروں
درد کم نہیں ہوتا
زندگی کے اداس لمحوں میں
تیری یادوں کےسایبان تو ہے
تیرا احساس تیری خوشبو ہے
میرے اپنوں کا ایک مان تو ہے
یہ کیا بجھاینگی چراغوں کو
کہ ہواوں میں دم نہیں ہوتا
کوئی شکوہ نہیں مگر مولا
کوئی شکوہ نہیں مگر مولا
کیا کروں
درد کم نہیں ہوتا
کیا کروں
درد کم نہیں ہوتا
کیا کروں
درد کم نہیں ہوتا
کیا کروں
درد کم نہیں ہوتا
کیا کہیں کس طرح گزاری ہے
زندگی تجھکو جی کے دیکھ لیا
میرے زخموں کی بات کرتے ہو
یہ زہر ہم نے پی کے دیکھ لیا
کیا کسی سے گلا کرے کوئی
خوب مایل کرم نہیں ہوتا
کوئی شکوہ نہیں مگر مولا
کوئی شکوہ نہیں مگر مولا
کیا کروں
درد کم نہیں ہوتا
کیا کروں
درد کم نہیں ہوتا
کیا کروں
درد کم نہیں ہوتا
کیا کروں
درد کم نہیں ہوتا