اس کی آنکھیں بے خوف، کوئلے کی مانند سیاہ۔۔
ایک بندوق کی طرح ۔۔۔ جس سے اس نے ایک ہی لمحے میں مجھے نشانہ بنا لیا
جب وہ چلے، گویا وقت رک سا جاتا ہے
زمان و مکان اور اس دنیا کی پروا کسے ہے؟
آہ میری گلاب کی سی محبوبہ! تمھارے لیے میرے پیار میں نازکی ہے
تم نے مجھے دھکیلا۔۔۔ میں حواس باختہ ہو گیا
اب ہوش و حواس میں آنا میرے بس میں نہیں۔۔۔ اتنا آسان نہیں
تو پھر آؤ اور میرے سامنے کھڑی رہو
آؤ کہ اس رات کا لطف اٹھائیں
تمھاری راہ چلتے چلتے میرا دل تمھارے جال میں پھنس گیا
تم مجھے جانتی ہو
میں نے ایک ہی دفعہ کسی کو چاہا؛ جل رہا ہوں پیار کہ نام پہ
آؤ کہ اس رات کا لطف اٹھائیں
تمھاری راہ چلتے چلتے میرا دل تمھارے جال میں پھنس گیا
مایوس ہو کر تمھارے دروازے پر آیا ہوں
اس جھوٹے کی جانب دیکھو اور کچھ رحم کرو
اس کی جلد برف کی طرح ملائم، سفید اور گرم
جب سامنے سے گزرے تو گل کی مہک پھیلا جائے
جب وہ اپنی زلفوں کو پلٹتی ہے، جب اس کے بال اڑھتے ہیں۔۔
تو دور سے اسے دیکھتے دیکھتے میرے چہرے پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے